اصحاب کرام کے نام جنہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی۔(اسماء اصحاب و شہداء بدر)
صحابہ کرامؓ
حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد صحابہ کرامؓ کی جماعت ایک مقدس اور پاکیزہ جماعت ہے، محسن انسانیتﷺکی بابرکت صحبت سے اللہ رب العزت نے ان نفوسِ قدسیہ کو انسانی شرافت کا اعلی نمونہ بنایا، یہی وجہ ہے کہ ہر صحابیؓ کی زندگی چلتاپھرتا اسلام ہے، اللہ رب العزت نے ان فدا کاروں کو ہدایت یافتہ ہونے کی سند عطا فرمائی، قرآن کریم نے ان کی زندگی اور ان کے افکار ونظریات میں انقلاب پیدا کرکے ان کی زندگی کا رخ مقصد اصلی کی طرف پھیر دیا، ہر ایک کے دل میں بس ایک ہی لگن تھی ،اعلاء کلمۃ اللہ ، دعوت حق اور تبلیغ اسلا م ہوجائے وہ ذاتی اغراض اور نفسانی خواہشات پر شرعی احکام اور اسلامی مقاصد کو غالب رکھتے تھے، جنت اور مغفرت کی طلب اور آرزو نے ان کو اللہ اور رسول سے اتنا قریب کردیاتھا کہ ان کو دنیا والوں کی خوشی اور نا خوشی کی کوئی پرواہ نہ تھی ،ان کی مقدس زندگی کااگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جب بھی باطل پرستوں نے عظمت اسلام کو للکارا، آفتاب رسالت ﷺکو بجھانے کی کوشش کی اور قصرِ دین وملت پر یلغار کی تو اصحابؓ رسول دشمنوں پر قہر وغضب بن کر ٹوٹے، شیر وببر بن کر جھپٹے اور راہ حق میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو ٹھوکروں میں اڑادیا ، باطل کے سیلِ رواں کے سامنے سدِّ سکندری بن گئے، طاغوتی طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہوگئے، قصر اسلام کی حفاظت کی اور پرچمِ تو حید بلند رکھا، حد تو یہ ہے کہ توحید کے پرستاروں اور شمع رسالتؐ کے پروانوں نے توحید و رسالت کے سامنے رشتۂ اخوت وابوت تک کو قربان کردیا ،خونی رشتوں تک کی پرواہ نہ کی جیسا کہ اسلامی تاریخ سے واضح ہے،اسی کے ساتھ جن صحابہؓ نے اسلام کی سب سے پہلی معرکۃ الآراء اور حق وباطل کے درمیان امتیاز کردینے والی لڑائی غزوہ بدر کبریٰ میں شرکت کی ان کو دیگرصحابہؓ پر حد درجہ فضیلت حاصل ہے ،قرآن وحدیث نے ان کی فضیلت اور کارناموں کو نمایاں انداز میں بیان کیاہے۔
غزوۂ بدر
اسلام کے غزوات میں غزوہ بدر سب سے پہلا اورکفرو شرک میں امتیاز پیدا کرنے والا غزوہ ہے؛اس لئے کہ اسلام کی عزت و شوکت کی ابتداء اور کفر شرک کی ذلت ورسوائی کی ابتداء اسی غزوہ سے ہوئی، اس لئے اس میں شریک ہونے والے صحابہ کرامؓ کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔
یہ غزوہ رمضان ۲ ھ میں پیش آیا، اس غزوہ میں اسلام کو ظاہری اور مادی اسباب کے بغیر اللہ کی رحمت اور تائید غیبی سے فتح و کامیابی حاصل ہوئی ، اس سے کفر شرک پر کاری ضرب لگی، اسی وجہ سے حق تعالیٰ نے اس دن کو قرآن کریم میں یوم الفرقان فرمایا،بدر ایک کنویں کا نام ہے جو بدر بن حارث یا بدر بن کمدہ نے بنایا، اس لئے اس کے قرب وجوار کے میدان کو بھی بدر کہتے ہیں،یہ مقام مدینہ سے مکہ کے راستے میں تقریبا اسی میل پر واقع ہے۔
غزوہ ٔبدرکے اسباب
کفار مکہ کو حضور ﷺ اور مسلمانوں کا مکہ سے صاف نکل جانا اور مدینہ میں شان وشوکت اور عظمت کے ساتھ رہنا اور فدا کاران اسلام میں روز افزوں ترقی ہونا بہت ناگوار اور کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا ،وہ مدینہ کے حکمرانوں اور بااثر لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے کہ مدینہ میں تارکین وطن کو پناہ نہ دی جائے، انہوں نے مدینہ کے منافقین اور یہود سے ساز باز شروع کردیا تھا اور قریش کے چھوٹے چھوٹے جتھے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے ارادہ سے مدینہ کے قریب اکثر گشت لگا رہے تھے ، کرز بن جابر فہری مدینہ کی چراگاہوں پر لوٹ مار کرتا رہتا تھا، ان حالات کے بعد اللہ تعالیٰ نے اب مسلمانوں کو بھی مقابلہ کی اجازت دی تب مسلمانوں نے اس چھیڑ چھاڑ کا جواب دینا شروع کیا، اہل مکہ کی تجارت کا سلسلہ شام سے وابستہ تھا اور مدینہ کے علاقہ سے یہ راستہ گذرتا تھا، مسلمانوں نے اس میں رکاوٹ پیدا کرنی شروع کردی؛ تاکہ اہل مکہ کی مالی قوت پر اثر پڑے جس کے بل بوتے پر وہ مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کی فکریں کرتے رہتے ہیں ، نیز اس تجارت کے حیلہ سے منافقین اور یہود مدینہ سے ساز باز کا جو موقع ہاتھ آجاتا تھا اس کا بھی خاتمہ کردیا جائے۔
قریش نے دیکھا کہ اب مسلمان بھی خاموش رہتے نظر نہیں آتے اور ہماری دسیسہ کاریوں کا جواب ملنے لگا ہے توبڑے غور و خوض کے بعد ایک فیصلہ کن جنگ کے لئے خفیہ تدابیر شروع کردیں ؛
-
مگر جنگ کے لئے کثیر سرمایہ کی ضرورت تھی؛اس لئے شام کی تجارت کے موسم میں ابوسفیان کی سرکردگی میں ایک تجارتی قافلہ بھیجا گیا، تمام مردوں اور عورتوں نے اپنا اپنا سرمایہ اس قافلہ کے حوالہ کردیا، تاکہ منا فع کی رقم جنگ کے سامان پر خرچ کی جاسکے۔
حملہ کی تیاری
ابو سفیان جب اپنے رفیقوں کے ساتھ شام سے مکہ واپس ہونے لگا تو رسول اللہ ﷺنے حالات وواقعات پر نظر رکھتے ہوئے اس قافلہ پر قبضہ کرنا ضروری سمجھا ،جلد سے جلد جو اشخاص تیار ہوسکے ان کو لے کر روانہ ہوئے ،یہ تین سو تیرہ تھے اور ساز وسامان کا حال یہ تھا کہ صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے اور معمولی اسلحہ ،چند آدمیوں کے علاوہ کسی کے پاس زرہ بھی نہ تھی ۔
ابوسفیان کا حزم واحتیاط
ابوسفیان کو جب اس بات کا علم ہوا تو ضمیم بن عمر غفاری کو اجرت دے کر مکہ دوڑایا کہ جاکر قریش کو اطلاع دے، جب قریش کو معلوم ہوا تو تمام اہل مکہ میں ہل چل پڑگئی؛چونکہ قریش کی اپنی پوری پونجی اس قافلہ کی تجارت میں لگی ہوئی تھی، ابولہب کے سوا کوئی شخص مکہ میں نہیں ٹھہرا ،اس نے بھی اپنی جگہ عاص ابن ہشام کو روانہ کیا، پورے جوش اور ساز وسامان کے ساتھ ایک ہزار جنگ جو جن میں سو گھوڑے سوار ،پیادہ فوج میں چھ سو زرہ پوش بے شمار اونٹ اور بے شمار اسلحہ کے ساتھ ابو جہل کی سرداری میں نکلے ۔
ابو سفیان نے حالات کا اندازہ کرکے قافلہ کا رخ بدل دیا اور ساحل کے راستہ سے صحیح سالم نکل گیا اور قریش کو یہ پیغام بھیجا کہ تم لوگ صرف قافلہ کے آدمیوں کو اور اپنے اموال کو بچانے کے لئے آئے تھے، اللہ نے سب کو بچالیا ہے ،لہٰذا تم سب مکہ واپس ہوجاؤ، ابوجہل نے کہا جب تک ہم بدر پہنچ کر تین دن تک کھا پی کر اور گا بجا کر خوب مزے نہ اڑالیں اس وقت تک ہرگز واپس نہ ہوں گے۔
حضور ﷺکا صحابہؓ سے مشورہ
جب اسلامی لشکر رَوحا پہنچا تو مخبر نے اطلاع دی کہ مکہ سے زبردست لشکر مسلمانوں سے جنگ کی غرض سے آرہا ہے ، رسول اللہﷺ نے مسلمانوں سے مشورہ فرمایا،صحابہ کرامؓ نے پورے جوش وخروش کے ساتھ جنگ میں حصہ لینے پر آمادگی ظاہر فرمائی، اس طرح مسلمانوں کے تین سو تیرہ مجاہدین کا بے سروسامان لشکر اور دوسری طرف کفار مکہ کا ایک ہزار پر شوکت لشکر بدر پہنچا۔
جنگ اور اللہ کی مدد
دونوں لشکروں میں جنگ ہوئی اللہ کی غیبی مدد ہوئی، کفار کا لشکر جنگ میں درہم برہم ہوکر شکست کھا گیا، ابو جہل اور مکہ کے بڑے بڑے سردار ہلاک ہوگئے، جس سے مکہ والوں کی طاقت ہمیشہ کے لئے کھوکھلی ہوگئی، رسول اللہ ﷺنے اللہ کا شکر ادا کیا اور زبان مبارک سے فرمایا: الحمد للّٰہ الذی اعز الاسلام واہلہ۔(۱)حمد ہے اس ذات پاک کی جس نے اسلام کو اور اہل اسلام کو عزت بخشی۔
بعض روایات میں ہے کہ سجدہ شکر بھی ادا کیا اورابن ماجہ میں ہے کہ آپ ﷺنے شکریہ میں دوگانہ پڑھا، اس جنگ میں ستر اہل مکہ ہلاک ہوئے اور اتنی ہی تعداد میں زخمی اور قید ہوئے، کفار کے مقتولین کی لاشیں رسول اللہﷺ کے حکم سے بدر کے کنویں میں ڈال دی گئیں ، امیہ کی لاش پھول کر بہت بھاری ہوگئی تھی اس لئے قتل گاہ ہی میں چھپا دیا گیا، ابو لہب شریک جنگ نہ تھا ،جب اس کو اس شکست کی اطلاع ہوئی تو غم کی وجہ سے مکان میں چلاگیا اور اپنے غصہ میں گھل کر یا کسی طاعونی بیماری میں مبتلا ہوکرگھر ہی میں مر گیا، مسلمانوں میں چودہ شہید ہوئے، چھ مہاجرین اورآٹھ انصار، جو کفار قید ہوئے انہیں فدیہ دے کر چھوڑ دیا گیا، فدیہ کی مقدار حیثیت کے مطابق ایک ہزار درہم سے چارہزار درہم تک تھی،جو نادار تھے اور فدیہ نہیں دے سکتے تھے، وہ بلا کسی معاوضہ اور فدیہ آزاد کردئے گئے، جو لکھنا جانتے تھے انہیں دس دس بچوں کو لکھنا سکھا دینے پر آزاد کردیا گیا ،حضرت زید بن ثابتؓ نے اسی طرح لکھنا سیکھا ۔
اہل بدر کی تعداد
بدری حضراتؓ کی تعداد میں روایتیں مختلف ہیں ، مشہور یہ ہے کہ تین سو تیرہ تھے، تعداد میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ اس بارے میں محدثین کے اقوال مختلف ہیں، حافظ ابن سید الناسؒ نے عیون الاثر میں تمام اقوال کو جمع کردیا اور ۳۶۳ نام شمار کرائے،حضرت جعفر بن حسن بن عبدالکریم برزنجیؒ نے اصحابؓ بدر کے اسماء مبارکہ اور ان کے فضائل وفوائد پر مشتمل ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے "بجالیۃ الکرب باصحاب سید العجم والعرب "اس کتاب میں برزنجیؒ نے متعدد کتابوں کے حوالہ سے اصحابؓ بدر کو ۳۶۳ کی تعداد میں ذکر کیا، تاکہ کسی قول کی بناء پر کوئی نام نہ رہ جائے، احتیاطاً سب کا ذکر کردیا؛ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ بدری صحابہؓ کی تعداد تین سو تریسٹھ ہے ،بلکہ انہوں نے وضاحت کردی کہ اس سلسلہ میں راجح قول یہی ہے کہ اصحابؓ بدر تین سو تیرہ ہیں جیسا کہ صاحب استیعاب نے ۳۱۳ کی تعداد ہی بیان کی ہے۔(۲)
مسند احمد، مسند بزاراور معجم طبرانی میں حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ اہل بدر تین سو تیرہ تھے،حضرت ابوایوب انصاریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺجب بدر کے لئے روانہ ہوئے تو کچھ دور چل کر اصحابؓ کو شمار کرنے کا حکم دیا، جب شمار کئے گئے تو تین سو چودہ تھے، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا پھر شمار کرو ،دوبارہ شمار کرہی رہے تھے کہ دور سے دبلے اونٹ پر ایک شخص سوار نظر آیا، اس کو شامل کرکے تین سو پندرہ ہوئے۔(۳)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺجب بدر کے ارادہ سے روانہ ہوئے تو تین سو پندرہ آدمی آپ ﷺکے ہمراہ تھے۔(۴)
یہ تین روایتیں ہیں ، لیکن حقیقت میں سب متحد ومتفق ہیں ،اس لئے کہ اگر اس آخری شخص اور نبی اکرم ﷺ کو بھی شمار کیا جائے تو تین سو پندرہ تھے، اگر اس آخری شخص اور آپ ﷺ کو اصحابؓ کے ساتھ شمار نہ کیا جائے تو پھر یہ تعداد تین سو تیرہ ہے، اس سفر میں کچھ صغیر السن بچے بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھے، جیسے:۱۔حضرت براء بن عازب ؓ۔۲۔حضرت عبداللہؓ۔۳۔حضرت انس بن مالکؓ ۴۔حضرت جابر بن عبداللہؓ، مگر ان کو قتال کی اجازت نہ تھی ،اگر ان کمسن بچوں کو بھی بدریین میں شمار کرلیا جائے تو پھر تعداد تین سو انیس ہوجاتی ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ اہل بدر تین سو انیس تھے۔
آٹھ آدمی ایسے تھے جو اس غزوہ میں کسی وجہ سے شریک نہ ہوسکے، لیکن اہل بدر میں شمار کئے گئے اور رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت میں سے ان کو بھی حصہ عطافرمایا، وہ آٹھ صحابہؓ یہ ہیں ۔
۱۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کو حضورﷺحضرت رقیہؓ کی علالت کی وجہ سے مدینہ منورہ چھوڑ گئے تھے۔
۲۔۳۔ حضرت طلحہ ؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کو رسول اللہ ﷺنے قریش کے قافلہ کے تجسس کے لئے بھیجا تھا ۔
۴۔ حضرت ابولبابہ انصاریؓ ان کو روماء سے مدینہ منورہ پر اپنا قائم مقام بنا کر واپس فرمایا۔
۵۔ حضرت عاصم بن عدیؓ کو عوالی مدینہ پر مقرر فرمایا۔
۶۔ حضرت حارثؓ بن حاطب بن عمرو بن عوف کی طرف سے آپ کو کوئی خبر پہنچی تھی اس لئے آپ نے حضرت حارث بن حاطب کو بنی عمرو کی طرف واپس بھیجا۔
۷۔ حضرت حارث بن صمہ ؓ ان کو رسول اللہ ﷺنے چوٹ آجانے کی وجہ سے مقام روحا سے واپس فرمادیا تھا۔
۸۔ حضرت خواتؓ بن جبیر پنڈلی میں چوٹ آجانے کی وجہ سے مقام صفراء سے واپس کردئے گئے تھے۔
ابن سعدؒ کا بیان ہے کہ مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے حضرت جعفرؓ کا بھی حصہ لگایا، جو اس وقت حبشہ میں تھے اور کہا جاتا ہے کہ حضرت سعد بن مالکؓ یعنی سھلؓ کے والد نے راستہ میں انتقال فرمایااور صبیح مولی احیحہ بیماری کی وجہ سے واپس ہوئے ۔(۵)
بدری فرشتے
اس جنگ میں کفار ومشرکین کی امداد کے لئے ابلیس لعین اپنا لشکر لے کر حاضر ہوا تھا، اس لئے حق تعالیٰ شانہ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے حضرت جبرئیل ،میکائیلؑ اور اسرافیلؑ کی سرکردگی میں آسمان سے فرشتوں کا لشکر نازل فرمایا جو ایک ہزار، پھر تین ہزار، پھر پانچ ہزار تھے۔ (۶)
شیطان سراقہ بن مالک کی شکل میں اور اس کا لشکر بنو مدلج کے مردوں کی شکل میں ظاہر ہوا، اسی وجہ سے فرشتے بھی مردوں کی شکل میں نمودار ہوئے، یہ اگر چہ صورۃ انسان تھے، مگر فرشتے تھے، جنگ بدر میں فرشتوں کا مسلمانوں کی مدد کے لئے آسمان سے نازل ہونا اور ان کا جہاد میں شریک ہونا آیات قرآنیہ اورا حادیث نبویہﷺسے ثابت ہے،لیکن روایات میں صرف تین فرشتوں کے نام معلوم ہوتے ہیں ۔
۱۔حضرت جبرئیلؑ۔ ۲۔حضرت میکائیلؑ۔ ۳۔حضرت اسرافیلؑ۔
شہدائے بدر
معرکہ بدرمیں ۱۴ اصحابؓ رسول ﷺ شہید ہوئے ،ان میں چھ مہاجرین اور آٹھ انصار تھے ۔
حضرت عبیدہ بن الحارثؓ:
یہ قبیلہ قریش کے مطلبی شاخ سے تعلق رکھتے تھے، کنیت ابوالحارث اور لقب شیخ المہاجرین ملا تھا، خاندان عبدالمطلب میں سے آپ کو قدیم الاسلام ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا، آپ نبی کریم ﷺکے دارالتبلیغ دار ارقم کے افتتاح کرنے سے پہلے ہی دولت اسلام سے فیضیاب ہوچکے تھے، عمر میں نبی کریم ﷺسے دس سال بڑے تھے، جب ہجرت کا حکم ملا تو آپ ﷺاپنے بھائیوں طفیلؓ، حصینؓ اور مسطح بن اثاثہؓ کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچے اور عبداللہ بن سلمہ عجلانی کے ہاں قیام کیا، نبی کریم ﷺکے یہاں حضرت عبیدہؓ کی بڑی قدر ومنزلت تھی،غزوہ بدر میں جن صحابہ کرامؓ نے اپنی جانیں ناموس رسالت پر نچھاور کیں ان میں حضرت عبیدہؓ بن الحارث نے سب سے پہلی اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے شہادت کا بلند مرتبہ حاصل کیا، اللہ اور اس کے رسول ﷺکی نگاہ میں سر خرو ہوگئے۔
آپ کو مقام صفراء میں دفن کیا گیا،آپ کی شہادت کے کچھ عرصہ بعد مسلمانوں کا ایک قافلہ اس مقام پر خیمہ زن ہوا تو ساری وادی مشک خالص کی خوشبو سے معطر تھی،صحابہؓ نے عرض کیا:یا رسول اللہ ﷺ اس مقام پر مشک کی خوشبو کہاں سے آرہی ہے؟ رسول اللہﷺنے فرمایا:تمہیں معلوم نہیں کہ میرے عبیدہ ؓ بن الحارث کی قبر ہے۔
حضرت عمیر ذوالشمالینؓ
آپ کا اسم گرامی عمیرؓاور لقب ذوالشمالین تھا، اس لقب کی وجہ یہ تھی کہ آپ دونوں ہاتھوں سے بیک وقت کام کرتے تھے، آپ کے والد عبد عمر وبن فضلہ قبیلۂ خزاعہ سے تعلق رکھتے تھے ،اپنا قبیلہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ آگئے تھے اور عبد الحارث بن زہرہ کے حلیف تھے، عبد الحارث نے اپنی بیٹی نغمی کی شادی عبد عمر سے کی، اسی نغمی کے بطن سے حضرت عمیر ذوالشمالینؓ پیدا ہوئے آپ مہاجرین بنوزہرہ میں سے تھے، جنگ بدر میں ابو اسامہ جثمی کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا،رضی اللہ عنہ ۔
حضرت صفوان بن وہبؓ
آپ بنی حارث سے تھے، والد کا نام بیضاء تھا، کنیت ابو عمرو، جلیل القدر بدری شہداء میں شمار ہوتے ہیں ،آپؓ بنو عدی کے ہاتھوں میدان بدر میں شہید ہوئے۔
حضرت عاقل ؓ
آپ مدینہ پاک میں بنو عدی کے حلیف تھے، سابقون الاولون میں شمار ہوتے ہیں ، دار ارقم میں دولت اسلام سے مشرف ہوئے ،اگرچہ آپ کے دوسرے بھائی عامر، الیاس اور خالد بھی معرکہ بدر میں شریک ہوئے، مگر شہادت صرف آپ ہی کو نصیب ہوئی، دور جاہلیت میں آپ کو غافل نام سے یاد کیا جاتا تھا، جب رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے فیض یاب ہونے لگے تو آپ ﷺ نے ان کا نام غافل سے عاقل رکھ دیا۔
حضرت عمیرؓ
والد کا نام مالک بن اہیب تھا ،حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فاتح قادسیہ کے چھوٹے بھائی تھے، جنگ بدر میں آپؓ عمرو بن ودّ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
حضرت مہجع بن صالح ؓ
یمن کے رہنے والے تھے عرب قزّاقوں نے آپ کو گرفتار کیااورمکہ میں لے آئے تھے، حضرت سیدناعمرفاروق ؓ نے آپ کوخریدکرآزادکردیا،آپؓ"سابقون الاولون" میں شمارہوتے ہیں ،بنی عدی کے ساتھ ہجرت کی،آپ حضرت نبی کریم ﷺ کی مجلس کے ان غرباء صحابہؓ سے تعلق رکھتے تھے، جن کے بارے میں قرآن پاک کی آیات نازل ہوئیں ،حضرات صحابہؓ آپ کی غربت پررشک کرتے، نبی کریم ﷺ کی نگاہ خاص کا مرکزتھے،حضرت مہجعؓ معرکہ بدر میں ایک کافر عمروبن حضرمی کے تیر سے زخمی ہوئے،جب رسول اللہ ﷺکو آپ کی شہادت کی اطلاع ہوئی تو بے اختیار فرمایا،آج مہجع سیدالشہداء ہیں ۔
حضرت سعدبن خثیمہ انصاریؓ
آپ قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے ،آپؓ ان بارہ مدنی بزرگوں میں شامل تھے جو بیعت عقبہ میں شریک ہوئے اور جن کی جرأت ایمانی نے مکہ کے مظلوم مسلمانوں کو حوصلہ بخشاتھا،آپ عمروبن ودّیا طعیمہ بن عدی کے ہاتھوں شہید ہوئے ،
حضرت بشرانصاریؓ
آپؓ انصار کے قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے والد کا اسم گرامی عبدالمنذرتھا اپنے بھائی ابو لبابہ کے ساتھ شریک بدر ہوئے،ابوثور کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔
حضرت عمیربن حمامؓ
عمیربن الحمام انصاریؓ قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے،مدینہ منورہ میں نبی کریمﷺ نے آپ کارشتۂ مواخات حضرت عبیدہ بن الحارثؓ سے قائم کیاتھا،یہ دونوں بھائی میدان بدر میں شہید ہوئے،میدان بدر میں جب جنگ زوروں پرتھی تورسول اللہ ﷺ نے فرمایاآج کافروں سے لڑتے لڑتے جو بھی شہید ہوگااللہ کی جنت اس کا استقبال کرےگی،حضرت عمیرؓاس وقت کھجوریں کھارہے تھے ،واہ واہ(بخ بخ)کہتے ہوئے اٹھے کھجوریں زمین پر پھینک دیں اور فرمایا،آج میرے اور جنت کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہوسکتی،آگے بڑھے اور تلوارلہراتے ہوئے کفارپرٹوٹ پڑے اور خالدبن ا لاعلم کے ہاتھوں شہیدہوئےؓ ۔
حضر ت یزیدؓ بن حارث
آپؓ قبیلہ نجار سے تعلق رکھتے تھے اور رشتہ مواخات میں ذوالشمالینؓ سے وابستہ تھے دونوں ہی میدان بدر میں شہادت کے اعزازسے سرفراز ہوئے، آپ کو طعیمہ بن عدی یا نوفل بن معاویہ نے شہیدکیا۔
حضرت رافعؓ
آپ کے والد کااسم گرامی معلیٰ تھا، قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے، معرکہ بدر میں عکرمہ بن ابی جہل کے ہاتھوں شہید ہوئے، رضی اللہ عنہ۔
حضرت حارث یاحارثہؓ
حارثہ بن سراقہؓ انصار کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے ،والدہ کانام بیع النضر تھا،یہ حضرت انسؓ کی پھوپی تھیں ،حضرت حارثہؓ با قاعدہ جنگ کرنے کے لئے میدان بدر نہیں گئے تھے؛ بلکہ ایک مبصر کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے،لیکن حبان عرقہ کے ہاتھوں شہیدہوئے،علامہ ابن حجر عسقلانی اور طبرانی نے آپ کو شہداء بدر میں شمارکیاہے مگر واقدی لکھتے ہیں کہ حضرت حارثہ میدان بدر میں حوض کے کنارے پانی پی رہے تھے کہ اچانک ایک تیر آپ کے حلق میں لگا جو آپ کی شہادت کا سبب بنا، ان کی شہادت کی خبر ان کی والدہ کو مدینہ منورہ پہونچی توآپ نے قسم کھائی کہ،جب تک حضور نبی کریم ﷺ بخیروعافیت مدینہ منورہ نہیں آجاتے اور مجھے اپنی زبان مبارک سے میرے بیٹے کی خبر نہیں سناتے ،میں اس کے لئے نہ روؤں گی نہ ہی گر یہ کروں گی۔
جب حضور ﷺ بدرسے واپس شریف لائے تو حضرت حارثہؓ کی والدہ خدمت نبوی ﷺمیں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ، حارثہ کی شہادت سے مجھے جو صدمہ ہواہے وہ آپ جانتے ہیں ، مگر میں نے فیصلہ کیا تھا جب تک یہ خبرآپ سے نہ سن لوں کسی قسم کا گریہ وزاری نہیں کرونگی، اگر وہ جنت کا حقدار ہے تو مجھے گریہ وزاری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، بصورت دیگراتنا رؤوں گی کہ زمین وآسمان تھرا اٹھیں گے ،غمزدہ ماں کی بات جب رسول اللہﷺ نے سنی تو فرمایا تم کیوں غمزدہ ہوتی ہو وہ تو جنت الفردوس میں شاداں وفرحاں ہے ،آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بشارت پاکر بیع النضرؓصبرکے ساتھ اٹھیں اور کہنے لگیں ،اب میں اپنے بیٹے کے لئے نہیں روؤں گی ۔
حضرت عوفؓ
والد کااسم گرامی حارث والدہ کا عفرا تھا،آپ اپنے مشہور چھوٹے بھائیوں معاذؓاورمعوذؓ کے ساتھ میدان بدر میں پہنچے اس کے بعدآپ دوڑے دوڑے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے:یا رسول اللہ وہ کونسا کام ہے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجاتا ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس بندے سے راضی وخوش ہوتا ہے جو زرہ کی پرواہ کئے بغیر لڑائی میں شریک ہوجاتا ہے،یہ سنتے ہی حضرت عوفؓ نے زرہ اتاری اور میدان کارزارمیں کود پڑے اور اپنی شجاعت کے ایسے جوہر دکھائے کہ دیکھنے والے حیران ر ہ گئے، آپؓ ابو جہل کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔
حضرت معاذؓ اور معوذ ؓ
انصار کے یہ دو کم سن مگر معروف بھائی معاذؓاورمعوذؓ حضرت حارث کے نامور فرزند تھےاور قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے، بیعت عقبہ میں شریک تھے، یہی وہ نوجوان تھے جو حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے اشارے پر ابو جہل پر ٹوٹ پڑے اور اسے زخمی کر کے گھوڑے سے نیچے گرادیا، ان کی تلوار کے زخم کے بعد ابو جہل دوبارہ نہ اٹھ سکا اور دیر تک موت وحیات کی کشمکش میں تڑپتا رہا ؛حتی کہ حضرت ابن مسعودؓ نے ان کا سر کاٹ دیا، عکرمہ نے ان شاہیں صفت نوجوانوں کو اپنے باپ پرجھپٹتے دیکھا تو حضرت معاذؓ کے بازو پر وار کیا جس سے آپ کا بازو کٹ گیا ، مگر لٹکتا ہوا بازو چونکہ لڑائی میں رکاوٹ تھا اس لئے حضرت معاذؓ خود اپنے ہاتھ کو پاؤں کے نیچے دبایا اور بازو کو علحدہ پھینک کر شریک جہاد رہے ، حضرت معاذؓاسی ایک بازو کے ساتھ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت تک زندہ رہے ،حضرت عثمانؓ فرمایا کرتے تھے کہ معاذؓ کا دوسرا بازو میں ہوں کیونکہ یہ بازو میرے آقا رسولﷺ کے دشمن کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کٹا تھااور حضرت معوذؓ کو ابومسافع نے شہید کردیا ۔
اہل بدر کے فضائل
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے حاطب بن ابی بلتعہؓ کے قصہ میں حضرت عمرؓسے مخاطب ہوکر فرمایا:
لَعَلَّ اللہ اطلع الی اہل بَدر فقال اعملوا ماشئتم فقد وجبت لکم الجنۃ۔ (۷)
"تحقیق اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف نظر فرمائی اور یہ کہہ دیا جو چاہے کرو جنت تمہارے لئے واجب ہوچکی"۔
حضرت رفاعہ بن رافع ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت جبرئیلؑ نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ سوال کیا کہ آپ ﷺاہل بدر کو کیا سمجھتے ہیں ؟ آپ ﷺنے فرمایا: سب سے افضل اور بہتر ،جبرئیلؑ نے فرمایا ، اسی طرح وہ فرشتے جو بدر میں حاضر ہوئے تھے سب فرشتوں سے افضل اور بہتر ہیں ۔(۸)
اصحاب بدر کے فضائل میں سب سے بڑی فضیلت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی کی زبان مبارک کے ذریعہ جنت کی بشارت دی " وجبت لکم الجنۃ"اے اصحاب بدر تمہارے لئے جنت واجب ہوگئی، نیز رسول اللہ ﷺنے فرمایا:" لن یدخل النار احد شہد بدراً("(۹جو شخص بدر میں حاضر ہوا وہ جہنم میں نہ جائے گا ، یہ بھی ان کے فضائل میں ہے کہ جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نازل کیا اور ان فرشتوں نے اصحاب بدر کے ساتھ مل کر دشمنان اسلام سے جنگ کی ۔(۱۰)
خواص وبرکات
ان فضائل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کے اسماء میں عجیب و غریب برکت اور غیر معمولی خواص رکھے ہیں ،جن کا بزرگوں نے بارہا مشاہدہ کیا ہے، اور عجیب تاثیر پائی ہے، حضرت برہان الدین حلبی مشائخ حدیث کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ اہل بدر کے اسماء ذکرکر کے جو دعا مانگی جاتی ہے مقبول ہوتی ہے،بارہا اس کا تجربہ ہوا ہے، اور جن مریضوں نے اہل بدر کے وسیلہ سے اپنے لئے شفا کی دعا مانگی ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا عطا فرمائی، حضرت جعفر بن عبداللہ سے نقل کیاگیا ہے کہ انہوں نے کہا میرے والد نے مجھے وصیت کی تھی کہ میں رسول اللہﷺکے صحابہؓ سے محبت رکھوں اور یہ کہ اپنی تمام مہمات میں اہل بدر کے وسیلہ سے دعا مانگوں ،نیز انہوں نے فرمایاتھا کہ بیٹے اہل بدر کے اسماء مبارکہ کے واسطے سے جو دعا مانگی جاتی ہے وہ قبول ہوتی ہے، انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جب کوئی بندہ اہل بدر کے اسماء کا ذکر کرتا ہے، ان کے ذکر کے ساتھ دعا مانگتا ہے تو اس وقت مغفرت،رحمت،برکت،رضا اور رضوان اس بند ہ کو گھیر لیتی ہے۔
صاحب مشکوۃ نے اہل بدر کے اسمائے مبارکہ" الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب" کے حوالے سے جو نقل کیا ہے، اسی کے مطابق ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
اسمائے گرامی حضرات بدریین مہاجرین رضی اللہ عنہم اجمعین
سیدالمہاجرین، امام البدریین، اشرف الخلائق، خاتم الانبیاء والمرسلین سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین۔
۱۔ ابوبکر صدیقؓ ۲۔ ابوحفص عمر بن الخطابؓ
۳۔ ابوعبداللہ عثمان بن عفانؓ ۴۔ ابوالحسن علی بن ابی طالبؓ
۵۔ حمزہ بن عبدالمطلبؓ ۶۔ زید بن حارثہؓ
۷۔ انسہ حبشی مولی رسول اللہ ﷺ ۸۔ ابو کبشہ فارسی مولی رسول اللہ ﷺ
۹۔ ابو مرثد کناز بن حصنؓ ۱۰۔ مرثد ابن ابی مرثدؓ
۱۱۔ عبیدہ بن حارثؓ ۱۲۔ طفیل بن حارثؓ
۱۳۔ حصین بن حارثؓ ۱۴۔ مسطح بن اثاثہؓ
۱۵۔ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہؓ ۱۶۔ سالم مولی ابی حذیفہؓ
۱۷۔ صبیح مولیٰ ابی العاص امیہؓ ۱۸۔ عبداللہ بن جحشؓ
۱۹۔ عکاشہ بن محصنؓ ۲۰۔ شجاع بن وھبؓ
۲۱۔ عتبہ بن وھبؓ ۲۲۔ یزید بن رقیشؓ
۲۳۔ ابو سنان بن محصنؓ ۲۴۔ سنان بن ابی سنانؓ
۲۵۔ محرز بن نضلہؓ ۲۶۔ ربیعہ بن اکثمؓ
۲۷۔ ثقف بن عمروؓ ۲۸۔ مالک بن عمروؓ
۲۹۔ مدلج بن عمروؓ ۳۰۔ سوید بن مخشیؓ
۳۱۔ عتبہ بن غزوانؓ ۳۲۔ حضرت مولیٰ بن غزوانؓ
۳۳۔ زبیر بن عوامؓ ۳۴۔ حاطب بن ابی بلتعہؓ
۳۵۔ سعد کلبی مولیٰ حاطب بن ابی بلتعہؓ ۳۶۔ مصعب بن عمیرؓ
۳۷۔ سویبط بن سعدؓ ۳۸۔ عبدالرحمن بن عوفؓ
۳۹۔ سعد بن ابی وقاصؓ ۴۰۔ عمیر بن ابی وقاصؓ
۴۱۔ مقداد بن عمروؓ ۴۲۔ عبداللہ بن مسعودؓ
۴۳۔ مسعود بن ربیعہؓ ۴۴۔ ذوالشمالین بن عبد عمروؓ
۴۵۔ خباب بن الارتؓ ۴۶۔ بلال بن رباح مولیٰ ابی بکرؓ
۴۷۔ عامر بن فہیرہؓ ۴۸۔ صہیب بن سنان رومیؓ
۴۹۔ طلحہ بن عبید اللہؓ ۵۰۔ ابو سلمہ بن عبد الاسدؓ
۵۱۔شماش بن عثمانؓ ۵۲۔ارقم ابی الارقمؓ
۵۳۔عماربن یاسرؓ ۵۴۔معتب بن عوفؓ
۵۵۔زیدبن الخطابؓ ۵۶۔مہجع مولیٰ عمربن الخطابؓ
۵۷۔عمروبن سراقہؓ ۵۸۔عبداللہ بن سراقہؓ
۵۹۔واقدبن عبداللہؓ ۶۰۔خولیٰ بن ابی خولیٰؓ
۶۱۔مالک بن ابی خولیٰؓ ۶۲۔عامر بن ربیعہؓ
۶۳۔عامربن بکیرص ۶۴۔عاقل بن بکیرؓ
۶۵۔خالدبن بکیرص ۶۶۔ا یاس بن بکیرص
۶۷۔سعیدبن زیدبن عمروبن نفیلؓ ۶۸۔عثمان بن مظعون جمحیؓ
۶۹۔سائب بن عثمانؓ ۷۰۔قدامہ بن مظعونؓ
۷۱۔عبد اللہ بن مظعونؓ ۷۲۔معمر بن حارثؓ
۷۳۔خنیس بن حذافہؓ ۷۴۔ابو سبرۃبن ابی رہمؓ
۷۵۔عبد اللہ بن مخرمہؓ ۷۶۔عبد اللہ بن سھل بن عمروؓ
۷۷۔عمیر بن عوف مولیٰ سھیل بن عمروؓ ۷۸۔سعد بن خولۃؓ
۷۹۔ابو عبیدہ عامر بن الجراحؓ ۸۰۔عمروبن الحارثؓ
۸۱۔سھیل بن وہبؓ ۸۲۔صفوان بن وھبؓ
۸۳۔عمروبن ابی سرحؓ ۸۴۔وھب بن سعدؓ
۸۵۔حاطب بن عمروؓ ۸۶۔عیاض بن ابی زہیرؓ
۸۷۔سعدبن معاذؓ
اسمائے گرامی حضرات بدریین انصار رضی اللہ عنہم اجمعین
۸۸۔عمرو بن معاذؓ ۸۹۔حارث بن اوس بن معاذؓ
۹۰۔حارث بن انسؓ ۹۱۔سعد بن زیدؓ
۹۲۔سلمہ بن سلامۃ بن وقشؓ ۹۳۔عباد بن بشربن وقشؓ
۹۴۔سلمہ بن ثابت بن وقشؓ ۹۵۔رافع بن یزیدؓ
۹۶۔حارث بن خزمہؓ ۹۷۔محمدبن مسلمۃؓ
۹۸۔سلمہ بن اسلمؓ ۹۹۔ابوالہیثم بن التیہانؓ
۱۰۰۔عبید بن التیہانؓ ۱۰۱۔عبد اللہ بن سہلؓ
۱۰۲۔قتادہ بن النعمانؓ ۱۰۳۔عبیدبن اوسؓ
۱۰۴۔نصر بن الحارثؓ ۱۰۵۔معتب بن عبیدؓ
۱۰۶۔عبد اللہ بن طارقؓ ۱۰۷۔مسعودبن سعد ؓ
۱۰۸۔ابوعبس بن جبیرؓ ۱۰۹۔ابوبردہ ہائی بن نیارؓ
۱۱۰۔عاصم بن ثابتؓ ۱۱۱۔معتب بن قشیرؓ
۱۱۲۔عمروبن معبدؓ ۱۱۳۔سہل بن حنیفؓ
۱۱۴۔مبشربن عبدالمنذرؓ ۱۱۵۔سعد بن عبیدبن النعمانؓ
۱۱۶۔سعد بن عبید النعمانؓ ۱۱۷۔عویم بن ساعدہ ؓ
۱۱۸۔رافع بن عنجدہؓ ۱۱۹۔عبیدبن ابی عبیدؓ
۲۰ٍ۱۔ثعلبہ بن حاطبؓ ۱۲۱۔ابولبابۃ بن عبد المنذرؓ
۱۲۲۔حارث بن حاطبؓ ۱۲۳۔حاطب بن عمروؓ
۱۲۴۔عاصم بن عدیؓ ۱۲۵۔انیس بن قتادہؓ
۱۲۶۔معن بن عدیؓ ۱۲۷۔ثابت بن اقرمؓ
۱۲۸۔عبد اللہ بن سلمہؓ ۱۲۹۔زیدبن اسلمؓ
۱۳۰۔ربعی بن رافعؓ ۱۳۱۔عبد اللہ بن جبیرؓ
۱۳۲۔عاصم بن قیسؓ ۱۳۳۔ابو ضیّاح بن ثابتؓ
۱۳۴۔ابو حنتہ بن ثابتؓ ۱۳۵۔سالم بن عمیرؓ
۱۳۶۔حارث بن النعمانؓ ۱۳۷۔خوات بن جبیر بن النعمانؓ
۱۳۸۔منذر محمدؓ ۱۳۹۔ابو عقیل بن عبداللہؓ
۱۴۰۔سعدبن خیثمہؓ ۱۴۱۔منذربن قدامۃؓ
۱۴۲۔مالک بن قدامۃؓ ۱۴۳۔ حارث بن عرفجہؓ
۱۴۴۔تمیم مولی سعدبن خیثمہؓ ۱۴۵۔جعبر بن عتیکؓ
۱۴۶۔مالک بن نمیلہؓ ۱۴۷۔نعمان بن عصرؓ
۱۴۸۔ خارجۃ بن زیدؓ ۱۴۹۔سعدبن ربیعؓ
۱۵۰۔عبد اللہ بن رواحہؓ ۱۵۱۔خلّاد بن سویدؓ
۱۵۲۔بشیربن سعدؓ ۱۵۳۔ سماک بن سعدؓ
۱۵۴۔سبیع بن قیسؓ ۱۵۵۔ عبادبن قیسؓ
۱۵۶۔عبداللہ بن عبسؓ ۱۵۷۔ یزید بن حارثؓ
۱۵۸۔خبیب بن اسافؓ ۱۵۹۔عبداللہ بن زید بن ثعلبہؓ
۱۶۰۔حریث بن زید بن ثعلبہؓ ۱۶۱۔سفیان بن بشرؓ
۱۶۲۔تمیم بن یُعارؓ ۱۶۳۔عبداللہ بن عمرؓ
۱۶۴۔زید بن المزینؓ ۱۶۵۔عبداللہ بن عرفطہؓ
۱۶۶۔عبداللہ بن ربیعؓ ۱۶۷۔عبداللہؓ بن عبداللہ بن ابی
۱۶۸۔اوس بن خولیٰؓ ۱۶۹۔زید بن ودیعہؓ
۱۷۰۔عقبہ بن وہبؓ ۱۷۱۔رفاعہ بن عمروؓ
۱۷۲۔عامر بن سلمہؓ ۱۷۳۔معبد بن عبادؓ
۱۷۴۔عامر بن البکیرؓ ۱۷۵۔ نوفل بن عبداللہؓ
۱۷۶۔عبادہ بن الصامتؓ ۱۷۷۔ اوس بن الصامتؓ
۱۷۸۔نعمان بن مالکؓ ۱۷۹۔ثابت بن ہزالؓ
۱۸۰۔ مالک بن دعثمؓ ۱۸۱۔ ربیع بن ایاسؓ
۱۸۲۔ورقہ بن ایاسؓ ۱۸۳۔ عمرو بن ایاسؓ
۱۸۴۔ مجذربن زیادؓ ۱۸۵۔ عباد بن خشخاشؓ
۱۸۶۔نحاب بن ثعلبہؓ ۱۸۷۔عبداللہ بن ثعلبہؓ
۱۸۸۔عتبہ بن ربیعہؓ ۱۸۹۔ابو دجانہ سماک بن خرشہؓ
۱۹۰۔منذر بن عمروؓ ۱۹۱۔ ابواسید مالک بن ربیعہؓ
۱۹۲۔ مالک بن مسعودؓ ۱۹۳۔عبدربہ بن حقؓ
۱۹۴۔کعب بن جمّازؓ ۱۹۵۔ضمرۃ بن عمروؓ
۱۹۶۔زیاد بن عمروؓ ۱۹۷۔بسبس بن عمروؓ
۱۹۸۔عبداللہ بن عامرؓ ۱۹۹۔ قراش بنؓمہؓ
۲۰۰۔ حباب بن منذرؓ ۲۰۱۔ عمیر بن الحمامؓ
۲۰۲۔ تمیم مولیٰ خراشؓ ۲۰۳۔عبداللہ بن عمرو بن حرامؓ
۲۰۴۔ معاذ بن عمروبن الجموحؓ ۲۰۵۔ معوذ بن عمرو بن الجموحؓ
۲۰۶۔ خلاد بن عمرو بن الجموحؓ ۲۰۷۔ عقبہ بن عامرؓ
۲۰۸۔حبیب بن اسودؓ ۲۰۹۔ثابت بن ثعلبہؓ
۲۱۰۔ عمیر بن الحارثؓ ۲۱۱۔بشر بن البراءؓ
۲۱۲۔ طفیل بن مالکؓ ۲۱۳۔ طفیل بن النعمانؓ
۲۱۴۔ سنان بن صیفیؓ ۲۱۵۔ عبداللہ بن جذ بن قیسؓ
۲۱۶۔ عتبہ بن عبداللہؓ ۲۱۷۔ جبار بن صخرؓ
۲۱۸۔ خارجہ بن حمیرؓ ۲۱۹۔ عبداللہ بن حمیرؓ
۲۲۰۔ یزید بن المنذرؓ ۲۲۱۔ معقل بن المنذرؓ
۲۲۲۔عبداللہ بن النعمانؓ ۲۲۳۔ ضحاک بن حارثہؓ
۲۲۴۔ سعاد بن زریقؓ ۲۲۵۔معبد بن قیسؓ
۲۲۶۔ عبداللہ بن قیسؓ ۲۲۷۔ عبداللہ بن منافؓ
۲۲۸۔ جابر بن عبداللہ بن ریابؓ ۲۲۹۔ خلید بن قیسؓ
۲۳۰۔ نعمان بن سنانؓ ۲۳۱۔ابوالمنذر یزید بن عامرؓ
۲۳۲۔ سلیم بن عمروؓ ۲۳۳۔قطبۃ بن عامرؓ
۲۳۴۔ عنترہ مولی سلیم بن عمروؓ ۲۳۵۔ عیس بن عامرؓ
۲۳۶۔ ثعلبہ بن غنمہؓ ۲۳۷۔ ابو الیسر کعب بن عمروؓ
۲۳۸۔ سہل بن قیسؓ ۲۳۹۔ عمرو بن طلقؓ
۲۴۰۔ معاذ بن جبلؓ ۲۴۱۔ قیس بن محصنؓ
۲۴۲۔ حارث بن قیسؓ ۲۴۳۔ حبیر بن ایاسؓ
۲۴۴۔ سعد بن عثمانؓ ۲۴۵۔ عقبہ بن عثمانؓ
۲۴۶۔ ذکوان بن عبد قیسؓ ۲۴۷۔ مسعود بن خلدہؓ
۲۴۸۔ عباد بن قیسؓ ۲۴۹۔ اسعد بن یزیدؓ
۲۵۰۔ فاکہ بن بشیرؓ ۲۵۱۔ معاذ بن ماعصؓ
۲۵۲۔ عائذ بن ماعصؓ ۲۵۳۔ مسعود بن سعدؓ
۲۵۴۔ رفاعہ بن رافعؓ ۲۵۵۔ خلاد بن رافعؓ
۲۵۶۔ عبید بن زیدؓ ۲۵۷۔ زیاد بن لبیدؓ
۲۵۸۔ فروہ بن عمروؓ ۲۵۹۔ خالد بن قیسؓ
۲۶۰۔ جبلہ بن ثعلبہؓ ۲۶۱۔ عطیہ بن نویرہؓ
۲۶۲۔ خلیقہ بن عدیؓ ۲۶۳۔ غمارۃ خرمؓ
۲۶۴۔ سراقہ بن کعبؓ ۲۶۵۔ حارثہ بن النعمانؓ
۲۶۶۔ سلیم بن قیسؓ ۲۶۷۔ سہیل بن قیسؓ
۲۶۸۔ عدی بن زغبارؓ ۲۶۹۔ مسعود بن اوسؓ
۲۷۰۔ ابو خزیمہ بن اوسؓ ۲۷۱۔ رافع بن حارثؓ
۲۷۲۔ عوف بن حارثؓ ۲۷۳۔ معوذ بن حارثؓ
۲۷۴۔ معاذ بن حارثؓ ۲۷۵۔ نعمان بن عمرؓ
۲۷۶۔ عامر بن مخلدؓ ۲۷۷۔ عبداللہ بن قیسؓ
۲۷۸۔ عصیمہ اشجعیؓ ۲۷۹۔ ودیقہ بن عمرؓ
۲۸۰۔ ابو الحمراء مولیٰ حارث بن عفراءؓ ۲۸۱۔ ثعلبہ بن عمروؓ
۲۸۲۔ سہیل بن عتیکؓ ۲۸۳۔ حارث بن صمہؓ
۲۸۴۔ ابی بن کعبؓ ۲۸۵۔ انس بن معاذؓ
۲۸۶۔ اوس بن ثابتؓ ۲۸۷۔ ابو شیخ ابی بن ثابتؓ
۲۸۸۔ ابو طلحہ زید بن سھلؓ ۲۸۹۔ حارثہ بن سراقہؓ
۲۹۰۔ عمرو بن ثعلبہؓ ۲۹۱۔ سلیط بن قیسؓ
۲۹۲۔ ابو سلیط بن عمروؓ ۲۹۳۔ ثابت بن خنساءؓ
۲۹۴۔ عامر بن امیہؓ ۲۹۵۔ محرز بن عامرؓ
۲۹۶۔ سواد بن غزیہؓ ۲۹۷۔ ابو زید قیس بن سکنؓ
۲۹۸۔ ابوالاعور بن حارثؓ ۲۹۹۔ سلیم بن ملحانؓ
۳۰۰۔ حرام بن ملحانؓ ۳۰۱۔ قیس بن ابی صعصعہؓ
۳۰۲۔ عبداللہ بن کعبؓ ۳۰۳۔ عصیمہ اسدیؓ
۳۰۴۔ ابوداؤد عمیر بن عامرؓ ۳۰۵۔ سراقہ بن عمروؓ
۳۰۶۔قیس بن مخلدؓ ۳۰۷۔ نعمان بن عبد عمروؓ
۳۰۸۔ حماک بن عبد عمروؓ ۳۰۹۔ سلیم بن حارثؓ
۳۱۰۔ جابر بن خالدؓ ۳۱۱۔ سعد بن سہیلؓ
۳۱۲۔ کعب بن زیدؓ ۳۱۳۔ بجیرہ بن ابی بجیرہؓ
۳۱۴۔ عتبان بن مالکؓ ۳۱۵۔ ملیل بن دبرہؓ
۳۱۶۔ عصمہ بن الحصینؓ ۳۱۷۔ بلال بن المعلیٰؓ(۱۱)
حوالہ جات
(۱) فتح الباری:ص:۲۳۰۔
^ مرآہ المناجیح شرح مشکوہ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی
(۳) طبرانی ،بیہقی۔
(۴) بیہقی۔
(۵) زرقانی :۱/۴۰۹،سیرت مصطفی:۱/۶۰۸۔
(۶) مختصر تفسیر ابن کثیر:۱/۳۱۶۔
(۷) بخاری شریف باب فضل من شہد بدراً،ح:۳۹۸۳۔
(۸) باب شہود الملائکۃ بدراً۔
(۹) مسند احمد ،ح:۲۷۰۴۲۔
(۱۰) مختصر تفسیر ابن کثیر:۱/۳۱۶۔
(۱۱) سیرت المصطفی :۲/۱۳۶ تا ۱۴۵۔
^ شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية مؤلف: أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني المالكي
یہ وہ 313 صحابہ کرام ہیں
جن کوجنگ بدر میں لڑنے کی سعادت ملی ہے
اور جن کو اللہ کی رضا اور جنت کی بشارت دی گئی
صلی اللہ علی حبیبہ محمد نور من نوراللہ وعلی آلہ وازواجہ واہل بیتہ وصحبہ وجدہ وذریتہ و کل امتہ وبارک وسلم کثیراً کثیرا و دائماً ابدا ♥️

No comments:
Post a Comment