Wednesday, August 25, 2021

حضرت بندگی میاں سید محمود سیدنجی خاتم المرشدینؓ

 حضرت بندگی میاں سید محمود عرف سیدنجی خاتم المرشدؓ


🕯️سالانہ عرس مبارک ۴۴۷🕯️


#بہرۂ_عام_مبارک :

  بروزِ منگل / ۱۴ محرم الحرام ۳۴۴۱؁ھ /24 اگست 2021ء،


#عُرسِ_مبارک :

  بروزِ چہارشنبہ / ۱۵ محرم الحرام ۳۴۴۱؁ھ / 25 اگست 2021ء،


نام :

  سید محمود رضی اللہ عنہُ۔


والد :

  حضرت بندگی میاں سید خوندمیر صدیقِ ولایتؓ۔


والدہ :

  حضرتہ سیدہ بی بی فاطمہ خاتونِ ولایتؓ۔


نانا :

  حضرت میراں سید محمد مہدی موعود ﷺ۔


نانی :

  حضرتہ سیدہ بی بی الہداتی علیہ السلام۔


عرفیت :

  سیدنجی۔


دادا :

  حضرت سید موسیؒ۔


دادی :

  حضرتہ بی بی بوّا تاجؒ۔

بنتِ : حضرت ملک مودود بن ملک یعقوب باڑی والؒ۔


سنِ ولادت :

  ۴۲۹؁ھ / 1518ء۔


مقامِ ولادت :

  جالور شریف، راجستھان، ہند 🇮🇳۔


تاریخِ عُرس :

  بروزِ منگل / ۱۵ محرم الحرام ۶۹۹؁ھ / 15 دسمبر 1587ء۔


مقامِ مدفن :

  حضرت بندگی میاں ملک معروفؓ کا پائن شریف، جالور شریف، راجستھان، ہند 🇮🇳۔


🕯️حالاتِ کم عمری :

●━━━━━★٭★━━━━━●


    حضرت سیدنجیؓ کی پیدائش کے ایک دن قبل حضرت ثانئ مہدیؓ نے معاملہ میں بندگی میاں سید خوندمیرؓ سے فرمائے، بھائی سید خوندمیرؓ اگر ہم تمہارے گھر آئیں تو کیا رعایت کرو گے۔ فرمائے! جیسے مہدی موعود ﷺ کی رعایت کرنی چاہئے، ایسی آپؓ کی رعایت کروں گا۔ اس کے بعد آپؓ توّلُد ہوئے، بندگی میاںؓ نے آپؓ کا نام "#سید_محمود" رکھا، اور فرمایا ایک ماموں کے ہم نام اور دوسرے ماموں (حضرت بندگی میراں سید اجمل شہیدؓ) کے ہم مقام ہیں۔ آپؓ کی پیدائش کے بعد بندگی میاںؓ نے اعلان کروایا جس نے "مہدی موعود ﷺ کو نہ دیکھا ہو وہ بھائی سید محمودؓ کو دیکھ لے"۔


   ایک مرتبہ میاںؓ نے فرمایا! ان فرزند کے جو احوال مجھ کو دِکھائی دیتے ہیں ان کو بیان نہیں کر سکتا کہ اس کے بھائی رشک کریں گے، جیسا کہ یوسفؑ کے بھائیوں نے کیا تھا اور اس فرزند کو رنجیدہ مت کرو، جو کچھ دیکھتا ہے کرتا ہے، اور وہی کہتا ہے جو دیکھتا ہے۔ فرمایا! جیسے یوسفؑ، یعقوبؑ کے لیے ویسے ہی سید محمودؓ اس بندہ کے لیے عزیز ہیں۔


 حضرت سیدنجیؓ کی سیدھی آنکھ میں کلمۂ توحید اور دوسری آنکھ میں کلمۂ تصدیق لکھا ہوا تھا۔


    جب آپؓ کی عمرِ مبارک ۴ سال کی ہوئی حضرتہ سیدہ بی بی فاطمہ خاتونِ ولایتؓ کا انتقال ۷ شعبان المعظم ۷۲۹؁ھ کو ہو گیا إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔ اُس وقت بندگی میاںؓ کا دائرہ کھانبیل شریف میں تھا۔ حضرت سیدنجیؓ جب ۷ سال کے ہوئے تب جنگِ بدرِ ولایت واقع ہوئی اور حضرت بندگی میاںؓ جنگ میں جانے کے لیے گھوڑے پر سوار ہوئے تو سیدنجیؓ بھی آنے کی زد کر رہے تھے تو بندگی میاںؓ آپؓ کو اپنی گود میں بیٹھا کر میدانِ جنگ کی طرف کوچ کئے، اس عمرِ مبارک میں سیدنجیؓ کو بندگی میاںؓ فیضِ مُقیّدہ کی تعلیم دے رہے تھے۔ جب آپؓ دُشمن کے لشکر کی طرف نظر کی تو فوجِ دشمن میں کھلبلی مچ گئی، دشمن کے گھوڑے آگے نہیں بڑھ رہے تھے۔ جب یہ کیفیت میاںؓ نے دیکھی تو سیدنجیؓ کو واپس دائرہ میں بھیج دیئے۔ سیدنجیؓ کی آنکھوں کی وہ نظر تھی جس میں کلمات لکھے ہوئے تھے۔ تو کیا مجال دشمن کی کہ ایک دھاگہ بھی آگے بڑھتا، کیونکہ یہ صورت مہدیؐ کی صورت تھی۔ 


  حضرت سیدنجیؓ کو بچپن میں بندگی میاںؓ نے بھائی مہاجر فاروقیؓ کے سپرد کیا تھا۔ ایک روز بھائی میاجرؓ ذکراللہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ سیدنجیؓ آئے اور پوچھا کیا کر رہے ہیں؟ تو فرمائے ذکراللہ کر رہا ہوں، سیدنجیؓ نے فرمایا ہمیں بھی بتائیے ہم بھی ذکراللہ کرینگے۔ پس میاں مبارک عرف بھائی مہاجر فاروقیؓ کششِ دم کے ساتھ سیدنجیؓ کو ذکراللہ کی تعلیم دی۔ لیکن سندِ صحبت خلیفۂ گروہؓ سے ہے۔


   حضرت بندگی میاںؓ نے قتال کے وقت اپنے بیوی بی بی عائشہؓ کو وصیت کی کہ سید محمودؓ کو فرزندِ مہدیؐ جان کر ان کی خدمت کرو، جو شخص ان کے سر پر محبت سے ہاتھ رکھے اور ایک کوزہ ٹھنڈے پانی کا پلائے، ان سے محبت سے بات کرے انشاءاللہ اس کی جزا خدا کے پاس دلاؤں گا۔


   حضرت مہدی موعود ﷺ نے جو دو تلواریں بندگی میاںؓ کو باندھی تھیں جنگ کے آغاز کے وقت آپؓ نے وہ تلواریں منگوائی۔ ایک تلوار باندھ لئے اور ایک تلوار سیدنجی خاتم المرشدینؓ کے لیے بندگی میاں ملک الہدادؓ کے پاس امانت رکھوائیں۔


    بی بی فاطمہ خاتونِ ولایتؓ کا ترکہ (میراث) جو سیدنجیؓ کے حصّہ میں آیا تھا اس سے حضرت بندگی میاںؓ نے جنگ کیلئے ایک گھوڑا خرید کر سیدنجی خاتم المرشدؓ کے نام سے شریکِ جنگ کیا۔ تاکہ سیدنجیؓ غزوۂ بدرِ ولایت میں شرکت کے اجر سے محروم نہ رہیں۔


  حضرت بندگی میاںؓ کی شہادت کے بعد آپؓ حضرت خلیفۂ گروہؓ وفات تک پورے چودہ سال خدمت میں گزارے، بعد وفات حضرت بندگی میاں ملک پیر محمدؓ بن خلیفۂ گروہؓ کی صحبت میں دو سال رہے۔ پھر بعد آپؓ حضرت بندگی میاں سید شہاب الدین شہاب الحقؓ کی صحبت اختیار کی اور پورے پچیس سال آپؓ کی پاس رہے۔


🕯️نوجوانی کے حالات :

●━━━━━★٭★━━━━━●


       ایک دن برہان شاہ بادشاہِ احمد نگر نے اچھے اچھے گھوڑے بہت سی فتوحات خلیفۂ گروہؓ کی خدمت بھیج کر کہلایا کہ سیدنجیؓ کو میرے پاس بھیج دیں، کہ میں اپنی لڑکی کی شادی سیدنجیؓ سےکرنا چاہتا ہوں۔ حضرت خلیفۂ گروہؓ نے اجازت دی مگر سیدنجیؓ نے یہ کہکر جانے سے اور شادی کرنے سے انکار کردیا کہ اس سے حضرت خلیفۂ گروہؓ کی صحبت سے دوری ہوجاتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد خلیفۂ گروہؓ نے آپؓ کی شادی حضرت ملک شاہ جیؒ (جِھنجواڑہ) دامادِ ملک شجاع الملک کی صاحبزادی بی بی راجے فاطمہ عرف بی بی بوبو صاحبہؒ سے کردی۔


  جب ملک خان کے ہاتھوں سے راجپوتوں نے جالور کی حکومت چھینلی۔ تو ملک خان نے دوبارہ جالور لینے کیلئے اپنے عزم کا اظہار کیا۔ حضرت سیدنجیؓ نے اس کی ہمّت افزائی کی اور تلوار اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کی کمر پر باندھ کر فرمایا کہ جاؤ جالور فتح ہو جائیگا۔ چنانچہ ملک خان جالور فتح کر لیا، اور وصیت کی کہ میرے جانشینوں کی تخت پوشی کے وقت حضرت سیدنجیؓ کی اولاد سے جو بھی اہلِ ارشاد (مرشِد) ہو ان کے ہاتھوں سے تلوار بندوائی جائے، یہ عمل آخری نواب پالن پور تک باقی رہا۔


  حضرت شہاب الدین شہاب الحقؓ کا انتقال ہو گیا اور اجماع نے میاں سید جلالؒ بن شہاب الحقؓ کی جانب رجوع کیا، تین دن کے بعد حضرت بندگی میاں سید جلالؒ نے دل میں اندیشہ کیا کہ چاچا میاں سیدنجیؓ کی موجودگی میں یہ طریقہ کمالِ بےادبی ہے۔ پھر چار روز بعد آپؒ نے حضرت خاتم المرشدینؓ سے علاقہ کیا اور دائرہ آپؓ کے حوالے کر دیا، حضرت شہاب الدین شہاب الحقؓ کی پوری اجماع نے حضرت سیدنجیؓ کی صحبت اختیار کرلی۔ سروہی کے قیام کے زمانہ میں حضرت بندگی میاں سیدنجیؓ کے دائرہ میں فاقوں کی شدّت کی خبر سن کر میاں یحییؒ اور میاں عیسیؒ فرزندانِ شہاب الحقؓ احمد نگر سے اپنا دائرہ میاں یوسفؒ کو سونپ کر قُد دونوں بزرگانِ دین، سیدنجیؓ کی خدمت میں سروہی آگئے۔ لیکن میاں شہاب الدینؒ کی شادی میں دساڑہ شریف جاکر آنے کی اجازت چاہی، حضرت خاتم المرشدینؓ نے فرمایا جاؤ تو ودائی سلام ہے، آؤ تو خوشی ہے، خدا کے اختیار میں ہے۔ پھر ملاقات ہو یا نہ ہو۔ بی بی بوبوؒ نے فرمایا! جب ایسا ہے تو جانے کی اجازت کیوں دے رہے ہیں، آپؓ نے فرمایا! مشیعتِ الہی میں دخل نہیں۔ واپسی میں بمقام دانتی واڑہ میں لُٹیرے کولیوں نے دونوں بزرگانِ دین اور پندرہ فقراء کو شہید کر دیا۔ جب یہ خبر سیدنجیؓ کو ملی آپؓ نے تمام دائرے کو جمع کر کے ان شہداءؒ کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی۔ میاں سید یحیی شہیدؒ اور میاں سید عیسی شہیدؒ کے شہید ہونے کی کیفیت سن کر سروہی کا راجا راؤ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا کہ اگر حکم ہو تو تمام لُٹیروں اور کولیوں کو مار کر ان کا پورا مال لیکر آتا ہوں۔ حضرت خاتم المرشدؓ نے فرمایا! فقیروں کا مال اور خون حلال ہے، ایسا کرنے کی ضرورت نہیں، راجہ راؤ خاموش ہو گیا۔


    ایک بار ایک نیل گائے جنگل سے آکر دائرہ کے دروازہ پر ٹہر گئی۔ اس وقت سیدنجیؓ کے دائرہ میں سخت فاقہ تھا۔ حضرت نے اس کو دیکھ کر فرمایا  اللہ نے دیا ہے اس کو ذبح کرو، فقیروں نے اس کو ذبح کرنے کے لئے پکڑا، وہ ٹہری رہی بھاگی نہیں، بعد اس کو ذبح کیا گیا۔ اور اس کا گوشت پوست الگ کیا گیا اور اس کی اوجھڑی اس باؤلی میں دھوئی گئی جس کا پانی راجا راؤ پیتا تھا۔ جب راجہ کو اس کی اطلاع ملی تو کہا کہ گائے کے پیدا کرنے والے نے گائے کو ذبح کیااس میں ہم کیا کریں۔ راجہ راؤ حضرت سیدنجیؓ کا بہت ہی معتقد تھا اور آپؓ کا پسخوردہ پیا ہوا تھا۔ جب وہ مر گیا اور اس کی لاش کو جلایا گیا تو جسم نہیں جلا۔


  حضرت خاتم المرشدینؓ کے زمانہ میں سویت کے یہ طریقہ قائم ہوا کہ مرشد کے چار حصے، خلیفوں کے تین حصے، فقیروں کے دو حصے، اور بیحدے فقیر کا ایک حصہ۔


  جب حضرت بندگی میاں شیخ مصطفٰی گجراتیؒ اکبر بادشاہ کی قید سے رہا ہوئے تو حضرت سیدنجی خاتم المرشدؓ کی خدمت میں آنا چاہ رہے تھے۔ مگر راستہ میں بیانہ میں انتقال فرما گئے، آخر وقت میں فرمائے! میرے منہ سیدنجیؓ کے دائرہ کی طرف کردو، آپؒ کے انتقال کی کیفیت سن کر حضرت سیدنجی خاتم المرشدینؓ نے فرمایا! اللہ تعالٰی نے میاں مصطفٰیؒ کو ہجرت کراکر اپنے دیدار کی نعمت عطا کی۔


  حضرت سیدنجیؓ کے دور میں بعض صحابہؓ زندہ تھے اور تابعین و تابع تابعینؒ آپؓ کا بہت ادب و احترام کرتے تھے۔ حضرت بندگی میراں سید عبدالحئی عرف روشن منورؓ جب کبھی آپؓ کے دائرہ کو تشریف لاتے تو ادبً اپنی جوتیاں دائرہ کے باہر دروازے پر چھوڑ دیتے تھے، حضرت خاتم المرشدینؓ آگے بڑھ کر ان جوتیوں کو اٹھا لیتے۔ جب حضرت روشن منورؓ واپس ہوتے، حضرت سیدنجیؓ آپؓ کی جوتیاں سیدھے کر کے سامنے رکھتے۔


  ۰۸۹؁ھ میں اکبر بادشاہ گجرات آیا اور ملک کو فتح کرکے احمدآباد میں ٹہرا، یہاں کی حکومت خان اعظم کے حوالے تھی۔ وہ ملاؤں کے زیرِ اثر مہدویوں کا جانی دشمن ہو گیا۔ اس زمانے میں حضرت بندگی میراں سید عبدالحئی عرف روشن منورؓ کی شہادت عمل میں آئی اور حضرت بندگی میاں شیخ مصطفٰی گجراتیؒ گرفتار کرلیے گئے۔ جب حضرت میاں مصطفٰیؒ اکبر کے دربار میں تھے، ملاؤں نے بادشاہ کو ترغیب دلاکر، حضرت سید محمود سیدنجی خاتم المرشدؓ کو دربار میں طلب کیا۔ آپؓ حضرت بندگی میاں سید تشریف اللہؓ کو اپنا دائرہ سُپرد کرکے احمدآباد تشریف لے گئے۔ جب آپؓ جانے لگے تو بہت سے لوگ آپؓ کے ہمراہ ہو کئے۔ آپؓ منع کیا لیکن وہ لوگ نہ مانے تب آپؓ نے فرمایا مجھے نامِ مہدی ﷺ پر پارہ پارہ کردیں، میرا گوشت کا ہر ٹکڑا مہدیﷺ مہدیﷺ کہے گا۔ جس میں یہ قوت ہو وہ ساتھ آئے، یہ سن کر لوگ حضرت کی نصیحت پر رک گئے۔ لیکن سید تشریفِ حقؓ بہت دور تک ساتھ رہے۔ سیدنجی خاتم المرشدؓ نے بڑے اسرار سے ان کو واپس کیا، آپؓ احمدآباد پہنچ کر سانبرمتی ندی کے کنارے ٹہرے، دوسرے روز شاہی دربار میں بحث ہوئی۔ جو مُلّا بحث کر رہا تھا۔ وہ بحث میں ہار گیا خجل (شرمندہ) ہوا۔ جب نماز کا وقت آیا تو آپؓ جانے کے لیے اٹھے اس نے آپؓ کو روکا، آپؓ نے فرمایا بندہ اپنے فقیروں کے ساتھ ندی پر جاکر نماز ادا کرے گا۔ ملا نے بہت روکا آپؓ نہیں مانے، اس نے کہا کیا آپؓ بادشاہ کے پیچھے بھی نہیں پڑتے۔۔۔۔ یہ سن کر آپؓ کو جلال آگیا، فرمائے ہاں نہیں پڑتا، جب تو جانتا ہے کیوں پوچھ رہا ہے۔ سیدنجیؓ کو جلال میں دیکھ کر اکبر بادشاہ کو اندیشہ ہوا اس نے اٹھ کر ہاتھ باندھ کر کہا جائے جائے اے ہمارے سید جائے جہاں جانا چاہتے ہو جائے۔ آپؓ واپس آکر ندی پر نماز ادا کی اور رات یہیں گذاری اور ایک سردار سے گھوڑا مانگا، اس نے کہا میرے پاس گھوڑا نہیں ہے۔ جو حضرت کی سواری کے لائق ہو، آپؓ نے فرمایا تیرے پاس گھوڑا نہ رہے۔ چنانچہ اس کا اقبال زوال پذیر ہوکر مفلس ہو گیا۔ پھر درانگ سندھی سے گھوڑا طلب کیا۔ اس نے کہا جو گھوڑا آپؓ کو پسند ہو لے جائیں اور ایک نہایت ہی اچھا گھوڑا آپؓ کو دیا۔ آپؓ نے انہیں دعا دی کہ خدا تمہاری دولت میں اضافہ کرے۔ چنانچہ درانگ سندھی کی اولاد آج تک نواحِ پالن پور میں نہایت مرفعہ حال اور دولت مند ہے۔


  حضرت سیدنجیؓ نے انتقال سے پہلے تمام فقراء اور سبھی اہلِ دائرہ کو جمع کر کے ایمان اور فیض کی تقسیم کی اور پانی منگوا کر سبھی کو پسخوردہ دیئے اور فرمایا کہ دائرہ سید میراںؒ کو دیا جاتا ہے اور اپنے فرزندوں اور پوتے کو ستونِ دین کی بشارت دی۔


🕯️وصال :

●━━━━━★٭★━━━━━●


  ۳ ذی الحجہ ۵۹۹؁ھ کی شب میں آپؓ تہجد پڑھ کر ذکراللہ بیٹھے ہوئے تھے کسی نے معاند (دشمن) نے اندھیرے میں آپؓ پر برچھی کا وار کیا اس کی آہٹ پر آپؓ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف کیا برچھا آپؓ کی ہتھیلی پرلگا۔ آپؓ نے فرمایا! دور ہو مردود، یہ سن کر آپؓ کی اہلیہ بی بی بوبوؒ حجرے کے باہر آئیں اور دیکھا کہ ہاتھ سے خون جاری ہے۔ حال پوچھا تو فرمایا کہ مشعیتِ ایزادی کے سوا چارہ نہیں سب جمع ہوئے حملہ آور باوجود تلاش کہ نہ ملا، اسی زخم سے جس کی تکلیف روز بروز زیادہ ہوتی گئی، آپؓ کا انتقال ۱۵ محرم الحرام ۶۹۹؁ھ کو ہوگیا إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔ حضرت کے حکم کے موجوب حضرت ملک حبیب بدریؒ، حضرت ملک نصرت پولادیؒ، حضرت میاں عبدالمومنؒ (امام)، حضرت میاں شیخ ابراہیمؒ ان چار بزرگوں نے غسل دیا۔ حضرت بندگی میاں سیدنجی خاتم المرشدینؓ کی وصیت تھی کہ آپؓ کو جالور شریف لیجاکر حضرت بندگی میاں ملک معروف خطعی جنّتیؓ کے زیرِ پائں دفن کریں۔ بعد آپؓ کو سروہی سے لاکر جالور شریف میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اس وقت جالور پر کوئی حاسد حاکم تھا۔ اس نے کہا کہ ہرگز بھی نعش مبارک کو دفن ہونے نہیں دونگا، لیکن حضرت بندگی میاں سید میراںؒ بن خاتم المرشدؓ نے راتوں رات لیجاکر دفن کر دیا۔ جب حاکم کو پتہ چلا تو اس نے ہاتھی اور گھوڑے بھیج کر تلاش کروایا مگر اس سر زمین پر جہاں سیدنجیؓ کو دفن کیا تھا۔ نہ کسی گھوڑے یا ہاتھی کا پیر دھنسا، سب حیران ہو گئے۔ خانے خانہ عبدالرحیم بن بیرم خان مغل نے اس کو حضرت سیدنجیؓ کی کرامت سمجھ کر تصدیق سے مشرف ہوا، اور دائرہ میں آکر بندگی میاں سید میراںؒ کے ہاتھ پر بیعت کرکے مصدق و مرید ہو گیا۔ چنانچہ اس کے اکثر سپاہی اور دیگر لوگ مہدوی تھے، جس کا اعتراف مخالفین کو بھی ہے۔


🕯️زوجہ اور اولادِ امجد :

●━━━━━★٭★━━━━━●


🌹1﴿ حضرتہ بی بی راجے فاطمہ عرف بی بی بوبو صاحبہؒ۔

بنتِ : حضرت ملک زین الدین عرف ملک شاہ جی جِھنجواڑہؒ۔

بی بی کا وصال بروز پیر / ۳ ربیع الاول ۷۹۹؁ھ / 30 جنوری 1589ء میں ہوا۔


۱) حضرت بندگی میاں سید ابراہیمؒ۔

(آپؒ کا وصال سیدنجیؓ کی حیات میں ہی ہوا)


۲) حضرت بندگی میاں سید علی ستونِ دینؒ۔


۳) حضرت بندگی میاں سید عثمانؒ۔

 (آپؒ کا وصال سیدنجیؓ کی حیات میں ہی ہوا)


۴) حضرت بندگی میاں سید نور محمد خاتمِ کار ستونِ دینؒ۔


۵) حضرت بندگی میاں سید میراں ستونِ دینؒ۔


۶) حضرت بندگی میاں سید مبارکؒ۔

(آپؒ کا وصال سیدنجیؓ کی حیات میں ہی ہوا)


۷) حضرت بندگی میاں سید عبداللہؒ۔

(آپؒ کا وصال بچپن میں ہی ہوا)


۱) حضرتہ سیدہ بی بی بوا ملک عرف بی بی صاحبہؒ۔

زوجۂ : حضرت بندگی میراں سید یوسف بارہ بنی اسرائیلؒ۔


۲) حضرتہ سیدہ بی بی آجےؒ۔

زوجۂ : حضرت بندگی میاں سید داؤدؒ بن میاں سید حسینؒ۔


۳) حضرتہ سیدہ بی بی راجے جیؒ۔

زوجۂ : حضرت بندگی میاں ملک شرف الدینؒ بن ملک یوسفؒ بن ملک حمّاد شہیدؓ۔


۴) حضرتہ سیدہ بی بی بوا بڑھنؒ۔

زوجۂ : حضرت بندگی میاں سید موسیؒ بن میاں سید احمدؓ بن بندگی میاںؓ۔


🕯️خلفاء :

●━━━━━★٭★━━━━━●


🌹۱) حضرت بندگی میراں سید یوسف بارہ بنی اسرائیلؒ۔ (داماد)


🌹۲) حضرت بندگی میراں سید خوندمیر بارہ بنی اسرائیلؒ۔


🌹۳) حضرت بندگی میاں سید نور محمد خاتمِ کارؒ۔ (بیٹے)


🌹۴) حضرت بندگی میاں سید علی ستونِ دینؒ۔ (بیٹے)


🌹۵) حضرت بندگی میاں سید میراں ستونِ دینؒ۔ (بیٹے)


🌹۶) حضرت بندگی میاں شیخ مصطفٰی گجراتیؒ۔


🌹۷) حضرت بندگی میراں سید حمیدؒ۔ (حضرت مہدی موعودﷺ کے پڑپوتے)


🌹۸) حضرت بندگی میاں سید غیاث الدین ستونِ دینؒ۔ (پوتے)


🌹۹) حضرت بندگی میاں ملک قطب الدینؒ۔

بن حضرت بندگی میاں ملک سلیمانؒ۔


🌹۱۰) حضرت بندگی میاں ملک شرف الدینؒ۔

بن میاں ملک یوسفؒ۔


لا الہ     الا اللہ    محمد   رسول     اللہؐ


اللہ            الھنا           محمد       نبیّٗنا 


القرآن  و  المہدیؑ  امامنا  آمنا و صدقنا


✉️پیش کردہ: راہِ حق مہدویت✒️


No comments:

Post a Comment

Hazrat Abdullah Bin Rawahah Shaheed (RZ)

 Hazrat A'bdullah Ibne Rawahah Shaheed رَضِیَ اللّٰەُ تَعَالٰی عَنْهٗ  🌹Katib-e-Rasool ﷺ Wa Sha'ir-e-Rasool ﷺ🌹 🌱Salana U'rs-e...