حضرت بندگی میراں سیدنا سید یُوسف عُرف مِٹّھے میاں بارہ بنی اسرائیل رحمۃ اللہ علیہ
🌹سالانہ عُرسِ شریف ۴۱۸واں🌹
#بہرۂ_عام_مبارک :
بروزِ چہارشنبہ / ۲ صفرالمظفر ۴۴۴۱ھ / 31 اگست 2022ء۔
#عُرسِ_مبارک :
بروزِ جمعرات / ۳ صفرالمظفر ۴۴۴۱ھ / 3 ستمبر 2022ء۔
اسمِ شریف :
سید یُوسف رحمتہ اللہ علیہ۔
والد :
حضرت بندگی میراں سیدنا شاہ یعقوب حسنِ ولایتؓ۔
والدہ :
حضرۃ بی بی بُوّا جی صاحبہؒ۔
بنتِ : حضرت میاں ملک گوہر شاہ فولادیؒ۔
سنِ ولادت :
۵۵۹ھ / 1518ء۔
مقامِ پیدائش :
بلاسر، نزدِ کڑی، گجرات، ہند 🇮🇳۔
القابات :
منبعِ فیوضاتِ سُبحانی، مجمعِ فُتوحاتِ رحمانی، بارہ بنی اسرائیل وغیرہ وغیرہ۔
برادر :
حضرت بندگی میراں سیدنا سید خوندمیر عُرف خانجی میاں بارہ بنی اسرائیلؒ۔
بہنیں :
۱﴾ حضرۃ سیدہ بی بی راجے مریمؒ۔
زوجۂ: حضرت بندگی میاں شاہ عبدالمومنؒ بن حضرت بندگی میاں شاہ عبدالرحمنؓ بن حضرت بندگی میاں شاہِ نظام دریائے وحدت آشامؓ۔
۲﴿ حضرۃ سیدہ بی بی راجے فاطمہؒ۔
زوجۂ: حضرت بندگی میاں نور محمد گجراتیؒ۔
دادا حضور :
حضرت بندگی میراں سیدنا سید محمود الملقب بہ ثانئ مہدیؓ۔
دادی جان :
حضرۃ بی بی کدبانوؓ۔
عُرفیت :
مٹّھے میاں صاحبؒ۔
تاریخِ وفات :
بروزِ جمعرات / ۳ صفرالمظفر ۶۲۰۱ھ / 9 فروری 1617ء۔
مقامِ روضۂ مبارک :
دولت آباد، خلدآباد، مہاراشٹر، ہند 🇮🇳۔
🌹حضرت شاہ یعقوب حسنِ ولایتؓ کا پہلا دائرہ اور میراں سید یُوسُفؒ کی ولادت :
❁٭┄❁٭٭─═✧═✧═✧═✧═─٭٭❁┄٭❁
حضرت شاہ یعقوب حسنِ ولایتؓ کا پہلا دائرہ بلاسر کا ہے۔ جب آپؓ خلیفۂ گروہؓ کا دائرہ چھوڑ کر نکل گئے۔ راستے میں حضرت بندگی میاں شاہ دلاورؓ کا دائرہ آگیا۔ آپؓ نے دائرہ کو پیٹھ دیکر جانا مناسب نہ سمجھا۔۔۔۔۔۔ اس لیے شاہ دلاورؓ کے پاس آئے۔ حضرت نے آپؓ کی بہت آؤ بھگت کی۔ دوسرے روز آپؓ حضرت بندگی میاں شاہ دلاورؓ کے ہمراہ حضرت بندگی میاں شاہ نعمتؓ کی خدمت میں آئے، اور علاقہ کر تجدید تلقین کرلی۔ کچھ عرصہ حضرت کے دائرہ میں رہنے کے بعد حضرت شاہ دلاورؓ اور حضرت شاہ نعمتؓ نے ملکر آپؓ کو افعالِ ارشادی کی اجازت دی اور اپنے سے الگ علیحدہ دائرہ بناکر دیا۔ آپؓ نے اپنا پہلا دائرہ بلاسر جو کڑی کے قریب ہے باندھا۔۔۔۔۔۔۔۔ آپؓ کا دائرہ بلاسر میں سالوں تک رہا۔ آپؓ اس دوران دوسری شادی حضرۃ بی بی بُوّا جی صاحبہؒ بنتِ حضرت میاں ملک گوہر شاہ فولادیؒ سے کی اور بی بی سے دو فرزند اور دو بیٹیوں کی پیدائش بلاسر کے دائرے میں ہوئی۔ جب دکن ع گجرات میں ۶۳۹ھ میں حضرت شاہ نعمتؓ اور ۵۴۹ھ میں شاہ دلاورؓ و ملک الہداد خلیفۂ گروہؓ کا انتقال ہو گیا۔ تو آپؓ اپنا دائرہ بلاسر سے لیکر دکن کی جانب ہجرت کی۔
🌹بچپن، تعلیم و تربیت :
❁٭┄❁٭٭─═✧═✧═✧═✧═─٭٭❁┄٭❁
بچپن میں جو تعلیم ہم اپنے بچّوں کو دیتے ہیں وہی تعلیم انہیں آگے چل کر اسی راستے پر چلاتی ہے۔ اچھی تعلیم گھر کا دیندار ماحول بچّوں کی زندگی میں کامیابی کے پھول کھلاتا ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے :
*جس زمین پر بارش نہ ہو*
*وہاں کی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں*
*اور جس گھر میں دینِ اسلام نہ ہو*
*وہاں کی نسلیں برباد ہو جاتی ہیں*
ماں باپ کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے بچّوں کو دنیاوی تعلیمات کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی وابستہ کریں۔ بچّوں کو شروع سے مہدویہ تعلیمات دی جائیں۔ بڑوں کی قدم قدمبوسی، بڑوں کو پہلے سلام کرنا، ہر سچّوں کی تعظیم کرنا، دائرۂ مہدویہ کے ہر عمل سے وابستہ کرانا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے کئی ایک واقعات ہماری قوم میں بزرگوں کی سیرتوں سے ملتے ہیں۔ آج ہم ایک ایسی عظیم ہستی کا ذکر کرنے جا رہے ہیں۔ جنکا نامِ نامی سید یوسف بارہ بنی اسرائیل رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ آپؒ کا بچپن اُن بزرگانِ دین کے سایہ میں گذرا ہے۔ جنکا ہر لمحہ اللہ کے دیدار سے منّور تھا۔ اُن کی زِندگانیاں اُن کے اعمال اللہ سے قرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ تھے۔ میراں سید یوسف بارہ بنی اسرائیلؒ کا بچپن ایسا ماحول میں گذرتا ہے۔ حضرت شاہ یعقوب حسنِ ولایتؓ نے اپنے فرزندوں کو علیحدہ علیحدہ مقتداؤں سے تربیت کرایا ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت بندگی میراں شاہ یعقوب حسنِ ولایتؓ دکن کی جانب ہجرت کرتے ہوئے۔ دائرہ لیکر نگرہ(کھمبات) آئے۔ یہاں میراں سید یوسفؒ اور میراں سید خوندمیر بارہ بنی اسرائیلؒ دونوں فرزندوں کو اپنے پاس بولا کر فرمائے کہ آگے کی تعلیمات کے لیے تم حضرت بندگی میاں سید محمود سیدنجی خاتم المرشدؓ کے پاس جاکر حاصل کرو۔ ان کی صحبت میں رہو اور ان کے حکم کی تعمیل کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ کہیں خدمت بجا لاؤ۔ جب دونوں بھائی تیار ہوکر میراں شاہ یعقوبؓ کی خدمت میں آئے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ سیدنجیؓ کی خدمت میں دنیا ترک کرکے علاقہ باندھ کر ان کی صحبت میں رہو، دونوں بھائیوں نے عرض کیا خوندکار کیا یہاں فیض نہیں ہے۔ فرمائے جو کچھ یہاں ہے وہ تمہاری میراث ہے۔ لیکن مرد وہی ہے جو باہر جائے اور کما کر لائے، اس لیے جاؤ اور خوب خدمت ادا کرو، تب دونوں بھائی اسی وقت روانہ ہوئے۔ تھوڑی دور گئے تھے کہ شاہ یعقوبؓ واپس طلب کرکے فرمایا کہ اس لیے تم کو بھیج رہا ہوں کہ ان کے باپ نے میرے دادا کے نام پر تین جگہ قد کو دفن کرایا ہے۔ دونوں بھائی روانہ ہوئے۔ اس وقت میراں سید یوسفؒ کی عمرِ مبارک اٹھارہ سال اور میراں سید خوندمیرؒ کی عمرِ مبارک سولہ سال کی تھی۔ حضرت حسنِ ولایتؓ اور حضرت سیدنجی خاتم المرشدؓ میاں سید یوسفؒ کو نہایت عطوفت و رفعت سے میٹھا بھائی کہتے تھے۔
حضرت سیدنجی خاتم المرشدینؓ کی ملاقات سے فیضاب ہونے کے بعد سیدنجیؓ نے ان سے ایسی خدمت لی جیسے کہ خدمت لینے کا حق ہے۔ حضرت بندگی میراں سید یوسفؒ کو حکم تھا کہ ہر دن جنگل جاکر تمام دائرے کے فقراء کے لیے گھاس اور لکڑی کا انتظام فراہم کریں، اور حضرت بندگی میراں سید خوندمیرؒ کو حکم تھا کہ وہ فقیروں کے حجروں کی گری ہوئی دیواروں کو مٹّى کلا کر درست کریں۔ اٹھارہ سال تک یہ دونوں گلشنِ ولایت کے پھول فقیری کی مشقّت کو برداشت کرتے رہے، اس کی شرح لکھنے سے قلم عاجز ہے۔
🌹نوجوانی :
❁٭┄❁٭٭─═✧═✧═✧═✧═─٭٭❁┄٭❁
حضرت میراں سید یوسفؒ نے جو دستار سر پر باندھی تھی۔ وہ تارتار ہو چوکی تھی اور اس کے علاوہ دوسری دستار نہیں تھی۔ حضرت میراں سید خوندمیرؒ اس عرصہ میں ایک ہی ڈغلہ(جُبّہ) پہنے ہوئے تھے۔ جس پر پیوند پر پیوند لگے ہوئے تھے۔ اس کے بغیر دوسرا نہیں تھا۔ ایک روز کسی نے نادانستگی سے حضرت شاہ یعقوبؓ کی خدمت میں غمخواری سے کہا کہ خوندکار آپؒ کے فرزندوں کا مرتبہ سیدنجی خاتم المرشدینؓ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا یہ حال ہے اور اسطرح سے گذر کر رہے ہیں۔ حضرت شاہ یعقوبؓ نے فرمایا اگر سیدنجیؓ ان کو اپنے غلاموں کے جیسا بھی دیکھیں تو اس میں ان کی خوبی اور بھلائی ہے تم کیا جانتے ہو۔ القصّہ اٹھارہ سال بعد حضرت سیدنجیؓ نے ان کو کمالِ شفقّت اور مہربانی سے بہت بشارتیں دیں۔
ایک دن دریا شاہ جالوری، حضرت میراں سید یوسفؒ کے ہاتھوں سے مارا گیا۔ چند سال بعد اس کا بیٹا جوان ہوا کسی نے اس سے کہدیا کہ تیرے باپ دریا شاہ کو میراں سید یُوسفؒ نے مار دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شخص اوباشوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا۔ جوش میں آکر کہا کہ میں سید یُوسف کو (استغفراللہ) مار دونگا۔ جب یہ بات حضرت سیدنجیؓ نے سنی میاں سید یُوسفؒ سے فرمایا تم دکن چلے جاؤ، وہ کوئی فتنہ انگیزی نہ کر بیٹھے، اور ہم تم کو خوشنودی سے رضا دیتے ہیں۔ تم میرے قریب رہنے والوں میں سے ہو۔ آپؒ دولت آباد آکر قیام پذیر ہو گئے۔ حضرت میراں سید خوندمیرؒ سیدنجیؓ کے پاس تھے۔ جب دریا شاہ کے بیٹے کو معلوم ہوا کہ میاں سید یُوسفؒ چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس نے کہا میں اس کے بھائی سید خوندمیر کو (استغفراللہ) مار ڈالوں گا۔ یہ بات سیدنجیؓ کو معلوم ہوئی تو آپؓ نے میراں سید خوندمیرؒ کو بھی خوشنودی سے اجازت دی اور فرمائے کہ "خانجی بھائی جاؤ مدد کرو میٹھا بھائی اکیلا ہے" میراں سید خوندمیر عُرف خانجی میاں بارہ بنی اسرائیل رحمۃ اللہ علیہ اپنے بھائی کے پاس دکن آگئے۔ حضرت سیدنجی خاتم المرشدؓ دونوں بھائیوں کی عقیدت و حسنِ خدمت سے بہت خوش تھے اور اپنی بیٹی بُوّا صاحبہ بی بی رحمۃ اللہ علیہا کا عقدِ نکاح میراں سید یُوسف بارہ بنی اسرائیلؒ سے کردیا اور میراں سید خوندمیرؒ کی شادی حضرت میاں دولت شاہ گجراتیؒ کی بیٹی سے کی، ان دونوں بزرگانِ دین کو سیدنجیؓ کے حضور میں اولاد ہوئی۔
حضرت بندگی میراں شاہ یعقوبؓ کے وصال کے بعد دونوں بھائی دکن تشریف لائے، اور دولت آباد میں دائرہ قائم کیا۔ دونوں بزرگانِ دین کے بیانِ قرآن اور پسخوردہ کی تاثیر سے اس نواح کے خلائق نے شرفِ ہدایت اور توفیقِ سعادت حاصل کی، بہت سے لوگوں نے ترکِ دنیا کر کے خدا کی طلب اختیار کی، بہت سے بڑے بڑے امراء جیسے سہیل خان سنگرام مہدوی اور جمال خان مہدوی حضرت بندگی میراں سید یُوسف عُرف مِٹّھے میاںؒ کے مرید ہوئے۔ جو کچھ ان امراء سے فتوح آتی اس کا عشر ہر سال نقدی، کپڑے اور دیگر سامان وغیرہ میراں سید یُوسفؒ، حضرت خاتم المرشدینؓ کی خدمت میں بھیجتے تھے۔ ایک وقت میراں سید یُوسفؒ نے خاتم المرشدینؓ کی خدمت میں نوسو ہون روانہ کیے۔ جب میراں سید یُوسفؒ دکن آگئے اور آپؒ کے پہلے بیوی سیدہ بوا صاحبہ بی بیؒ جالور شریف میں رہگئیں تھیں۔ تو حضرت میراں سید یُوسفؒ دکن آنے کے بعد حضرۃ بی بی سمّو پٹھانیؒ سے دوسرا عقدِنکاح فرمایا اور بوا صاحبہ بی بی رحمۃ اللہ علیہا کو طلب فرمایا تو بی بی نے کہا میرا کیا کام ہے۔ حضرت بندگی میاں سید محمود سیدنجی خاتم المرشدینؓ خاموش تھے۔ چند مراسلات بھیجے مگر جواب نہیں ملا اس کے بعد حضرت میراں سید یُوسفؒ نے میاں سید خوندمیر بارہ بنی اسرائیل رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا خانجی بھائی تم جاؤ اور اپنی بھاوج کو لیکر آؤ، تمہاری مروت وہاں بہت ہے۔ حضرت سید خوندمیرؒ جالور شریف آئے اور بھاوج سے چلنے کے لئے کہا، پر بی بی نے انکار کیا۔ حضرت سیدنجی خاتم المرشدؓ نے سن کر فرمایا بوا صاحب خوشی سے جاؤ کہ میاں (یعنی مانند بندگی میاںؓ) آئے ہیں۔بندہ انہیں کیسے واپس کرے۔ بی بی راضی ہوکر دولت آباد آگئیں۔
حضرت سیدنجی خاتم المرشدینؓ کے انتقال کا وقت قریب تھا۔ کسی نے عرض کیا کہ اس وقت میراں سید یُوسفؒ اور میراں سید خوندمیرؒ حاضر نہیں ہیں۔ حضرت خاتم المرشدؓ نے فرمایا حاضر ہیں۔ جس وقت بندہ وضو کرتا ہے یہ دونوں بھی وضو کرتے ہیں۔ جب بندہ نماز ادا کرتا ہے یہ دونوں بھی نماز ادا کرتے ہیں۔ بندہ جو کام یہاں کرتا ہے وہی کام وہ دونوں وہاں کرتے ہیں۔ ایک بھائی میرا سیدھا بازو ہے اور ایک بھائی میرا بایاں بازو ہے۔ باطنی طور پر دونوں میرے پورے پورے تابع ہیں۔ عزیزوں اس اتحاد و یکتائی پر غور کرو :
" *والمرید اذافنی فی الشیخ فھو شیخ* "
اور جب مرید شیخ میں فنا ہوتا ہے، تو شیخ بن جاتا ہے۔ 🌹سبحان اللہ🌹
کسی نے حضرت سید یُوسفؒ سے کہدیا تھا کہ میاں سید سعداللہؒ بن میاں سید تشریف اللہؓ کا عقیدہ صحیح نہیں ہے۔ یہ بات سن کر میراں سید یوسفؒ ان سے گراں خاطر تھے۔ ایک روز میراں سید یوسفؒ پالکی میں سوار جارہے تھے۔ میاں سید سعداللہؒ بیہلی سے اتر کر آئے اور میراں سید یوسفؒ کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر فرمائے "میٹھا بھائی میرے دادا نے تمہارے دادا کے نام پر سر کٹاکر تین جگہ دفن ہوئے ہیں، تم کو نہیں چاہئے کہ ہم سے جدا رہیں" میراں سید یوسفؒ یہ سن کر پلٹ گائے اور میاں سعداللہؒ کو گلے سے لگا کر فرمائے سعد بھائی کسی رہزن نے رہزنی کر دی تھی۔ اس کے بعد آپس میں خوشی سے گفتگو ہوئی۔
🌹مطلع الولایت📙 :
❁٭┄❁٭٭─═✧═✧═✧═✧═─٭٭❁┄٭❁
حضرت بندگی میراں سید یُوسف عُرف مِٹّھے میاںؒ نے سیرتِ مہدی موعودﷺ پر ایک کتاب لکھی ہے۔ جس کا نام 📙مطلع الولایت📙 ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کتاب حضرت بندگی میراں سید مصطفٰی بارہ بنی اسرائیلؒ کی آرزو اور سوال پر لکھی ہے۔ یہ کتاب حضرت سید مصطفٰیؒ کی وفات کے بعد لکھی ہے۔ جس کا سنِ تصنیف ۶۱۰۱ھ ہے۔ اس سے پہلے بھی اکبر بادشاہ کے وزیر و نو رتن میں شمار حضرت فیضی مہدویؒ نن میاں شیخ مبارک مہدویؒ سے آپؒ نے حضرت مہدی موعود علیہ الصلواۃ و السلام کے حالات اور واقعات تفصیل سے بیان کیے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان سے فرمائے تھے کہ حضور مہدی موعود ﷺ کی سیرت ہی حضرت مہدی موعود ﷺ کے دعوے کا ثبوت ہے۔ فیضیؒ ان واقعات کو سماعت فرمانے کے بعد تصدیقِ مہدی سے مشرف ہوئے اور فیضیؒ فرماتے ہیں :
*فیضی نہ شور خاتمہ تو بہ ہدایت*
*تا ختم امامان ہدی روانہ شناسی*
🌹وصال :
❁٭┄❁٭٭─═✧═✧═✧═✧═─٭٭❁┄٭❁
حضرت بندگی میاں سید محمود سیدنجی خاتم المرشدینؓ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے وقت میراں سید یوسف بارہ بنی اسرائیلؒ کی عمرِ مبارک تیس سال کی تھی اور آپؒ کے دولت آباد آنے کے چھ ماہ بعد سیدنجی خاتم المرشدینؓ کا وصال 71 سال کی عمر شریف میں دولت آباد میں بروزِ جمعرات / ۳ صفرالمظفر ۶۲۰۱ھ / 9 فروری 1617ء کو ہوا۔ آپؒ کے نسب سے اولاد دائرہ چن پٹن اور دائرہ مانوی کرناٹک میں آباد ہے اور ارشادی مانوی میں چل رہی ہے۔ یوسفی آپؒ کی ہی اولاد سے ہیں۔
🌹بیویاں، لونڈی اور بچّے :
❁٭┄❁٭٭─═✧═✧═✧═✧═─٭٭❁┄٭❁
🌷۱﴿ حضرۃ سیدہ بی بی بُوّا جی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہا۔
بنتِ : حضرت بندگی میاں سید محمود سیدنجی خاتم المرشدینؓ۔
دختر :
۱) حضرۃ سیدہ بی بی الہداتی عرف آجے صاحبہؒ۔
(بچپن میں انتقال فرمائے)
فرزندان :
۱) حضرت بندگی میراں سید باقرؒ۔
(بچپن میں انتقال فرمائے)
۲) حضرت بندگی میراں سیدنا شاہ قاسم مجتہدِگروہؒ۔
۳) حضرت بندگی میراں سید مرتضٰیؒ۔
🌷۲﴾ حضرۃ بی بی سمُّو پٹھانی رحمتہ اللہ علیہا۔
فرزند :
۱) حضرت بندگی میراں سید حمیدؒ۔
(آپؒ عالمِ جوانی میں مجذوب ہو گئے تھے)
🌷۳﴿ حضرۃ بی بی بائی کوری رحمتہ اللہ علیہا۔ (لونڈی)
دختر :
۱) حضرۃ سیدہ بی بی امت الغفورؒ۔
زوجۂ : حضرت میاں ملک احمد بھاٹیؒ۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہؐ
اللہ الھنا محمد نبیّٗنا
القرآن و المہدیؑ امامنا آمنا و صدقنا
✉️ *پیش کردہ:- راہِ حق مہدویت*✒️

No comments:
Post a Comment